اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

این اے ۱۲۲ اخلاقی فتح یا اخلاقی شکست؟

تصویر
علیم خان قبضہ مافیا بمقابلہ سرکاری ڈکیت   تحریکِ انصاف انتخابات لڑنے کی حد تک ناتجربہ کار سمجھی جاتی ہے۔ نہ بریف کیس والی جوڑ توڑ سیاست سیکھ سکی نہ ہی گلو بٹ استعمال کرنے آئے لیکن دیوانے کے خواب کی طرح ہم نوجوان جو چور، ڈاکو، لٹیرے حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ سے عاجز آچُکے ہیں، عمران خان کے پیچھے چل رہے ہیں کہ ہمیں اس میں  امید کی کرن نظر آتی ہے۔ وہ زرداری کی طرح شاطر نہیں، نواز شریف کی طرح کینہ پرور اور سازشی نہیں، الطاف حسین کی طرح بلیک میلر نہیں، غرض کہ اس میں سیاستدان بننے والی کوئی خوبی ہے ہی نہیں اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے نہ صرف نوجوان نسل بلکہ دوسری تیسری جنریشن کے لوگ جنہوں نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے لٹتے دیکھا تھا، تبدیلی کی خواہش لیئے عمران خان کی حمایت میں متحد ہوگئے۔ اسلئے کہ وہ بار بار کے آزمائے سیاستدانوں کے ڈسے ہوئے تھے اور اس لیئے بھی کہ یہ انکی اپنی جنگ تھی۔ اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر کھانے والوں کے خلاف اس ملک سے محبت کرنے والوں کی جنگ۔  اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے تحریکِ انصاف نے عام انتخابات میں مار کھائی اور اس وقت بھی حالات یہ ہیں کہ گراؤنڈ پر، یو...

میری پارو ___

آج بھی بارش ٹوٹ کے برسی جیسے اس دن ... یاد ہے تم کو جل تھل تو اس روز بھی تھا جب  ہم تم پہلی بار ملے تھے جاڑے کی وہ سرد ہوائیں  اُڑتے پھرتے زرد سے پتے بن میں پت جھڑ اجڑے پیڑ، پرندے، موسم لیکن میرے دل کے اندر اجلے اجلے رنگ دھنک کے جیسے آنگن میں چندا ہو جیسے ہر سو پھول کھلے ہوں جیسے آنچل میں تارے ہوں یاد ہے تم کو؟  پارو، پارو "پارو، میری پیاری پارو۔" جانتے ہو نا؟ جب تم مجھ سے یہ کہتے تھے پارو میری پیاری پارو جانتے ہو نا؟ جب تم مجھ کو دیکھتے تھے تو،  رنگ حسیں تر ہوجاتے تھے اب کے برس بھی آئی بہاریں کونپل پھوٹیں،  رنگ دھنک کے  جھڑگئے مجھ سے چاندنی راتیں ہوئیں اماوس ماند پڑی پھر، تیری پارو! ٹوٹ گئی پھر، تیری پارو! تجھ سے بچھڑ کر،  خود سے بچھڑ کر  مرگئی پارو

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے----__

میں یہ سطریں لکھتے وقت ٹرین میں بیٹھی ہوں۔ ارادہ تھا کہ ڈھائی گھنٹے کے پیرس تک کے سفر کے دوران مطالعہ کروں گی لیکن ٹرین کی تیز رفتار اور بھٹکتی سوچوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ کتاب کھولتے ہی سر چکرانے لگا سو میں نے کتاب بند کرکے آئی پیڈ کھول کر  لکھنا شروع کردیا۔  صبح تیار ہونے اور ٹویٹ کرنے کے دوران ایک ناقابلِ یقین خبر ملی۔ ایک جاننے والے صاحب جن کی بظاہر بےحد چاہنے والی بیگم تین دن پہلے انتقال کر گئیں تھیں، نے انکے سوئم کے روز شادی کر لی۔  میں اس جوڑے کو ذاتی طور پر جانتی تھی۔ میں نے جب یہ خبر سنی تو مجھے یقین نہیں آیا۔ دونوں کی محبت کی مثالیں پورے خاندان میں دی جاتیں۔ میں نے وہ محبت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور سوچتی تھی کتنے خوش نصیب ہیں یہ دونوں جن کو ایک دوسرے کی بےلوث محبت ملی۔ خاتون میکے چلی جاتیں تو بقول ان صاحب کے انکے حلق سے نوالہ نہ اترتا۔ خاتون اپنے شوہر کی بے مثال محبت کی باتیں سنا سنا کر نہال ہوتیں۔ شرمیلی اور مغرور مسکراہٹ سے بتاتیں کہ اگر وہ اپنے شوہر سے روٹھ جائیں تو وہ کھانا تک کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض کہ انکی قابلِ رشک محبت کے چرچے ہر طرف تھے۔  تین دن...

میاں نواز شریف کی مختصر سوانح عمری خود انکی زبانی_

تصویر
یوں تو آپ نے کئی تاریخ ساز شخصیات کی سوانح عمری پڑھی ہوگی لیکن جس شخص کی بے مثال زندگی کے بارے میں آج میں آپکو مختصراً بتانے جارہا ہوں اس سے زیادہ متاثر میں آج تک مارٹن لوتھر کنگ اور الیگزینڈر دی گریٹ جیسے لوگوں تک سے نہ ہو سکا۔یہ متاثرکن شخصیت کوئی اور نہیں، میں میاں محمد نواز شریف، بقلم خود ہوں۔ مجھ جیسا عظیم رہنما نہ دنیا میں آیا اور نہ رہتی دنیا تک آئیگا۔ دانت بند رکھیئے کیونکہ میں آپکو اسکی وجوہات بتانے جارہا ہوں۔  1949ء کی ایک تاریک رات میرے ابا حضور میاں محمد شریف کی کچھ سنگین غلطیوں کے نتیجہ میں میرا اس جہان میں آنا ممکن ہوا، پیدائش لاہور کے قدیم علاقے گوالمنڈی میں ہوئی، گوالمنڈی کی گلیوں میں گلی ڈنڈا اور بنٹے کھیل کر میں بڑا ہوا۔  نزدیک ہی لنڈا بازار میں ابا جی کی سکریپ کی دکان تھی جو تقسیم سے پہلے انہوں نے ایک ہندو بنیئے سے ہتھیائی تھی۔  سینما جا کر فلمیں دیکھنے اور رنگ برنگے کپڑے پہننے کا شوق مجھے بچپن سے تھا لیکن ابا جی پیسے دینے میں کنجوس واقع ہوئے تھے۔ مجبوراً میں دکان سے پرانے نلکے چرا کر بیچتا اور فلمیں دیکھتا۔ اگر نلکہ موٹا اور وزنی ہوتا تو اچھے دام مل جا...

کھایا گیا ہے بانٹ کے کس اہتمام سے جیسے مرا وطن کوئی چوری کا مال تھا _

میں نے کچھ دن پہلے جب لکھنے کا ارادہ کیا تو مقصد ان لوگوں کو سیاسی تاریخ سے آگاہ کرنا تھا جو حقائق سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ لفافہ صحافت اپنی اپنی مرضی کے حقائق توڑ مروڑ کر تاریخ کا رخ لفافے کے وزن کے حساب سے موڑنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ پرائیویٹ چینلز کی بھرمار کے بعد سے عموماً لوگوں کی معلومات کا ذریعہ ٹاک شوز ہی ہوتے ہیں اور جو لوگ زیادہ ہوشیار ہیں وہ ویکیپیڈیا اور انٹرنیٹ پر بھانت بھانت کے لوگوں کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں خود کو well informed گردانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اندر کی اور اصل باتیں کسی اچھے سے اچھے صحافی کو بھی سو فیصد درست معلوم نہیں ہوتیں۔  میں چند مضمون مرحلہ وار لکھنا چاہتی ہوں۔ اس مقصد کیلئے ہمارے دوست عمران اقبال نے اپنے بلاگ پر میرے دو مضمون چھاپے بھی جن کو بہت پزیرائی بھی ملی اور قدرتی طور پر ن لیگ کے حامیوں نے برا بھلا بھی کہا لیکن میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتی ہوں کہ میں نے ایک ایک لفظ سچ لکھا۔ ریفرنسز بھی دیئے جہاں سے معلومات کی تصدیق کروائی جا سکتی ہے۔  ایک بہت پیارے دوست ساجد نے کل یہ بلاگ خود ہی بنا دیا تاکہ میں جو لکھوں یہاں ری...

ہم، تم اور فاصلے۔۔۔۔۔۔۔۔ گردشوں کے سفر میں یہی مستقل ٹھہرے

محبت۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم، تم اور فاصلے۔۔۔۔۔۔۔۔ گردشوں کے سفر میں یہی مستقل ٹھہرے۔  نواز شریف کی کرپشن کی تاریخ بیان کرتے کرتے میری تحریر کا موضوع اچانک محبت جیسا لطیف جذبہ ہوگیا۔۔۔۔۔ شاید لوگوں کو حیرت ہو گی کیونکہ کہاں ٹویٹر کی سخت الفاظ استعمال کرتی ہوئی تلخ ، بدتمیز اور بدزبان لڑکی اور کہاں محبت کا لفظ۔  اس لڑکی کے تو محبت کبھی قریب سے بھی نہ گزری ہوگی۔ لیکن جو لوگ میرے قریب ہیں یا تھے، چاہے وہ تحریکی ہوں، پٹواری ہوں یا نام نہاد نیوٹرل، میری وہ سائڈ جانتے ہیں جو محبت سے لبریز ہے۔  میرے دل سے صرف محبت کی ترسیل ہوتی ہے۔ میرے اندر سیاست کو لے کر جو تلخیاں بھری ہیں وہ میری پاکستان سے بےپناہ محبت کی وجہ سے ہی اتنی شدید ہیں۔ میرا دل محبت کے سوا کچھ اور کرنا اور سوچنا جانتا ہی نہیں۔ میں نے اس موضوع پر اپنے احساسات قلمبند کرنے کا فیصلہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کیا۔ شاید یہ تحریر آپکو بے ربط لگے اور اسکا مقصد بھی سمجھ میں نہ آئے۔ اس تحریر کا مقصد شاید خود مجھے بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید پیمانہ چھلک گیا ہے، شاید میں catharsis کرنا چاہتی ہوں۔ شاید دل کا بوجھ ہلک...

کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے (دوم)

کافی دن سے چند موضوعات سوچوں کا محور بنے ہوئے تھے۔ وقت اور دھیان نہ ہونے کے سبب انہیں تحریری شکل نہیں دے پا رہی تھی۔ ان موضوعات میں سرِ فہرست بینظیر کے خلاف قومی اسمبلی میں لائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کی سازش جو ‘آپریشن مڈنائٹ جیکال’ کے نام سے مشہور ہوئی اور سیاست میں ‘چھانگا مانگا سیاست’ جیسی اصطلاحات جس کے موجد شریف برادران ہیں، کی تفصیلات تھیں لیکن آج تحریکِ انصاف کے ایک رکن اسمبلی رائے حسن نواز کو اثاثے چھپانے کی پاداش میں تاحیات پابندی کی سزا سنائی گئی تو انصاف کے اس ننگے کھیل نے مجھے میرا موضوع بدلنے پر مجبور کردیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تھرڈ ڈویژن میں گریجویشن کرنے کے بعد اور کئی پیشوں میں ناکامی کے بعد جب نواز شریف قبلہ سن ۸۱ میں ضیاالحق کی مہربانی اور ابا جی کی ڈپلومیسی کے بل بوتے پر پنجاب کے وزیرِ خزانہ بنے تو پاکستان کا وہ آئین معطل تھا جس کی دہائیاں دے دے یہ اور ان کے حواری خود کو جمہوری ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ وزیرِ خزانہ کے خاندان کے اس وقت کے اثاثہ جات اور آمدنی محض چند لاکھ روپے تھے اور یہ ایک رولنگ مل کے مالک تھے۔ یہاں سے انکی ترقی کا سفر شرو...

کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے

مجھے لکھنا نہیں آتا، نہ ہی میٹھے میٹھے الفاظ میں لپیٹ کر بغض نکالنا آتا ہے۔ بلاگز لکھنے کا ہرگز کوئی شوق یا ارادہ نہیں لیکن مجھے تاریخ پڑھنے کا جنون ہے۔ پاکستانی سیاست کی رولر کوسٹر تاریخ پر ہر طرح کی کتابیں اور تجزیئے زیرِ مطالعہ رہی ہیں۔ کس چیز کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں اور اسکے محرکات کیا ہیں، سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ آپ کو تاریخ کا صحیح علم ہو۔  پسندیدہ تاریخ پڑھنا اور اسی کو دلائل کیلئے استعمال کرنا ہمارے ملک میں درباری کلچر کو فروغ دینے میں خاصہ مددگار ثابت ہوا ہے۔ میں سیاسی غیر جانبداری کا دعوی تو نہیں کرتی لیکن اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی اور اس سے میری کسی سیاسی وابستگی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلم لیگ قیامِ پاکستان کے بعد ایک واحد مرکزی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ قائداعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ مفاد پرستوں کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ پہلا مارشل لا لگنے کے بعد مسلم لیگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور 1962 میں جنرل ایوب خان ک...