میاں نواز شریف کی مختصر سوانح عمری خود انکی زبانی_


یوں تو آپ نے کئی تاریخ ساز شخصیات کی سوانح عمری پڑھی ہوگی لیکن جس شخص کی بے مثال زندگی کے بارے میں آج میں آپکو مختصراً بتانے جارہا ہوں اس سے زیادہ متاثر میں آج تک مارٹن لوتھر کنگ اور الیگزینڈر دی گریٹ جیسے لوگوں تک سے نہ ہو سکا۔یہ متاثرکن شخصیت کوئی اور نہیں، میں میاں محمد نواز شریف، بقلم خود ہوں۔

مجھ جیسا عظیم رہنما نہ دنیا میں آیا اور نہ رہتی دنیا تک آئیگا۔ دانت بند رکھیئے کیونکہ میں آپکو اسکی وجوہات بتانے جارہا ہوں۔ 

1949ء کی ایک تاریک رات میرے ابا حضور میاں محمد شریف کی کچھ سنگین غلطیوں کے نتیجہ میں میرا اس جہان میں آنا ممکن ہوا، پیدائش لاہور کے قدیم علاقے گوالمنڈی میں ہوئی، گوالمنڈی کی گلیوں میں گلی ڈنڈا اور بنٹے کھیل کر میں بڑا ہوا۔ 



نزدیک ہی لنڈا بازار میں ابا جی کی سکریپ کی دکان تھی جو تقسیم سے پہلے انہوں نے ایک ہندو بنیئے سے ہتھیائی تھی۔ 

سینما جا کر فلمیں دیکھنے اور رنگ برنگے کپڑے پہننے کا شوق مجھے بچپن سے تھا لیکن ابا جی پیسے دینے میں کنجوس واقع ہوئے تھے۔ مجبوراً میں دکان سے پرانے نلکے چرا کر بیچتا اور فلمیں دیکھتا۔ اگر نلکہ موٹا اور وزنی ہوتا تو اچھے دام مل جاتے اور میں قریب ہی موجود لنڈے کی دکان سے کبھی لال کوٹ کبھی پیلی پینٹ خرید لیتا۔

کھانے پینے کو میں ضرورت  یا مشغلہ نہیں عبادت سمجھتا ہوں۔ نہاری اور پائے کھانے کا شوق مجھے لڑکپن کے زمانے سے ہی تھا۔ جیل کے دنوں میں نروٹوں والی نہاری کی کمی شدت سے محسوس ہوتی۔ (مشرف پر باآوازِ بلند تبرہ)

 پُلوں اور سڑکوں کی تعمیر سے فارغ ہوتے ہی میں نہاری کو قومی ڈِش کا درجہ دینے کیلئے رائے عامہ ہموار کرونگا بلکہ میری کوشش ہوگی کہ اسکے لیئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ 

پڑھائی سے مجھے بچپن سے ہی الرجی رہی ہے۔ یہ عادت آج بھی قائم ہے۔ میں صرف وہ کتابیں پڑھتا ہوں جو میرے خاندان کی عظمت کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔ انگریزی سکول کے شوق میں مجھے اور چھوٹو کو سینٹ انتھونی سکول میں ڈالا تو گیا لیکن ہم نے فرنگی زبان کو مسترد کرتے ہوئے پیلے سکول پاکستان ریلوے ہائی سکول مغلپورہ میں داخلہ لے لیا اور میٹرک وہاں سے پاس کیا۔ اسکا ذمہ دار ہماری کمزور انگریزی کو ٹھہرایا جاتا ہے  حالانکہ یہ ہماری پاکستان اور قومی زبان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

میٹرک پاس کرنے کے بعد مجھے میری مرضی کے خلاف گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔  میں عادتاً کم گو واقع ہوا ہوں لیکن کالج میں مجھے 'کگو' کہہ کر میرا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ میں چھپ چھپ کر روتا اور سوچتا کیا ان بدبختوں کو نہیں معلوم کے تاریخ کےعظیم اور عقلمند لوگ بولتے کم اور سنتے زیادہ ہیں؟ میں آج بھی زیادہ بولنے کا قائل نہیں ہوں۔ جہاں بولنے کی ضرورت پیش آتی ہے جیب سے پرچیاں نکال کر پڑھ لیتا ہوں۔ 



گلی کے دوسرے کونے کے گھر کی اوپر والی منزل پر بشیراں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کیلئے آئی تو میرا پہلے سے اچاٹ دل کتابوں سے مزید اچاٹ ہو گیا۔ میں کبھی دودھ کبھی دہی اور کبھی تندور سے روٹیاں لانے کے بہانے گلی کے اس پار کئی کئی چکر لگانے لگ گیا۔ بشیراں مجھے دیکھتے ہی اپنی ہلکی سی جھلک دکھا کر سرخ آنچل ہوا میں لہراتی کھڑکی سے غائب ہوجاتی۔  میرا دھیان بٹ گیا، راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ رات خواب میں بھی بشیراں کا سرخ آنچل لہراتا نظر آتا۔ میری محبت کی بیل تو منڈھے نہ چڑھ سکی لیکن بی اے کے امتحانات میں سپلی آگئی۔ بشیراں کی رخصتی پر زردہ کھاتے کھاتے میں یہ سوچ کر آبدیدہ ہو گیا ک نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔  سپلی آنے کا دکھ اور بشیراں کو کھونے کا دکھ تب سوا ہو گیا جب ابا جی نے فیل ہونے پر جھاڑ پلائی اور دو چار تھپڑ بھی جڑ دیئے۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ ناکارہ ہی سمجھا تھا۔ میں احساسِ کمتری کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ ابا جی کی ڈانٹ کا میری نفسیات پر الٹا اثر ہوا۔ میں نے سپلی دی، پاس تو ہوگیا لیکن تھرڈ ڈویژن میں۔ ابا جی کی مار میرے لیئے دھرنا ثابت ہوئی۔ اگر مجھے وہ مار نہ پڑتی تو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوتا کیونکہ میرا دھیان بٹانے والی بشیراں بھی اب گلی سے جاچکی تھی۔ 



حال ہی میں انٹرنیٹ سے پتہ چلا کہ کئی لوگوں نے مجھے پنجاب یونیورسٹی کا لا گریجویٹ بنا کر پیش کیا ہوا ہے۔ شاید اس میں بیٹی مریم کی کاوشیں بھی شامل ہوں جس نے ایسے کاموں کیلئے تنخواہ دار پالے ہوئے ہیں۔   مجھے خود بھی یاد نہیں کہ میں نے وکالت کس وقت پاس کی۔ اب اتنے سارے لوگ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہوگا۔ چونسٹھ سال کی عمر میں دماغ کے کئی خلئے کام کرنا بند کردیتے ہیں اور یادداشت  کمزور ہوجاتی ہے۔ 



بیچ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں نے کرکٹر بننے کی ٹھانی۔ گوالمنڈی کی گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے کی مشق تو تھی ہی لہٰذا  میں نے سوچا کیوں نہ کرکٹ کھیلی جائے۔ پاکستان ریلوے کی طرف سے ایک فرسٹ کلاس میچ کراچی میں کھیلنے کا موقع ملا  جس میں میں صفر پر آؤٹ ہو گیا۔ میں آج تک اس آؤٹ کو اپنے خلاف ایچی سن کے برگر لڑکوں کی سازش سمجھتا ہوں۔ میرے حساب سے وہ نو بال تھی۔ آپ خود بتایئے کیا کسی کھلاڑی کو ایک میچ کی کارکردگی پر جانچنا انصاف ہے؟ عمران خان کتنے میچوں میں ناکام ہوا لیکن، حالانکہ میں نہیں مانتا پھر بھی وہ ایک عظیم کرکٹر کہلایا۔ مجھے اتنے چانس ملتے تو آج میری تصویر بھی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے ہال آف فیم میں لگی ہوتی۔ میری گوالمنڈانہ صلاحیتیوں کو نظرانداز کرکے ایچی سن کے امیر گھرانے کے لڑکوں کو آگے کیا گیا۔  میں نے قسم کھائی کہ میں ایک دن پاکستان کا امیر ترین شخص بن کر دکھاؤں گا، اور میں بنا۔ 



ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔  میری خوبصورتی اور وجاہت کے چرچے گوالمنڈی اور لنڈا بازار میں زبان زدِ عام تھے۔

نوجوان لڑکیاں دروازوں اور چوباروں کی اوٹ سے مجھے دیکھنے کیلئے گھنٹوں کھڑی رہتیں۔ اس صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابا جی نے اپنے دیرینہ دوست، فلم انڈسٹری کے معروف کامیڈین، رنگیلا انکل کو مجھے فلموں میں اداکار بنانے کا ٹاسک دیا۔ رنگیلا انکل نے مجھے ایک دو چھوٹے چھوٹے رول دے کر ابا جی کا بھرم رکھا اور پھر کہا کہ یہ لڑکا چلے گا نہیں۔ حقیقت کچھ اور تھی۔ اس وقت کے بڑے بڑے ہیرو مجھ سے خائف ہوگئے تھے۔ میری خوبصورتی اور خدادا ادا کارانہ صلاحیتوں نے انکی نیندیں حرام کردیں۔ لیکن الله تعالی نے مجھے بڑے سٹیج پر اداکاری کیلئے چننا تھا۔ جو فلم انڈسٹری بری فلمیں پروڈیوس کرنے کیلئے مشہور تھی وہاں سے میں اور زرداری صاحب، دو عظیم شخصیات ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے الله تعالی کے فضل و کرم سے آج بڑے بڑے منجھے ہوئے اداکاروں سے زیادہ مہارت سے ایکٹنگ کرکے کروڑوں لوگوں کو متاثر کررہے ہیں۔  جن لوگوں نے میری خوبصورتی نہیں دیکھی وہ اور مجھے گنجا کہنے والے ایک نظر نیچے میری تصویر پر ڈالیں۔ میں گنجا ماں کے پیٹ سے نہیں پیدا ہوا تھا۔ 

آپکو اندازہ نہیں ہے کہ میرے بال آپ لوگوں کی، اس ملک کی معاشی ترقی کی فکر میں گھل گھل کر جھڑے ہیں۔ 

مارشل لا کے زمانے میں ابا جی نے بابائے جمہوریت جنرل جیلانی کو مفت سریا فراہم کرکے دیرینہ تعلقات بنالئے۔ ایک روز جنرل صاحب نے ابا جی سے کہا کہ حالات سازگار ہورہے ہیں آپ اپنے بیٹے سیاست میں لائیں۔ جنرل صاحب کی نظر چھوٹے پر تھی۔ ابا جی جنہوں نے مجھے ہمیشہ انڈراسٹیمیٹ کیا، نے جنرل صاحب سے کہا 'شہباز تے میرا کماؤ پتر اے، تسی گونگلو نوں لے لو۔' یقین کریں  میرا دل بہت دکھا لیکن میں نے تہیہ کرلیا کہ میں بہت آگے جا کر دکھاؤں گا اور میں گیا۔ وزیر سے وزیرِ اعلی اور پھر تین مرتبہ وزیراعظم بنا۔ میری اس ترقی کا کریڈٹ فوج ، چھانگا مانگا سیاست اور اب چوہدری افتخار کو دینے والے میری ترقی اور ٹیلنٹ سے جلتے ہیں۔ میں ایک پیدائشی لیڈر ہوں۔ 



میرے دل میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا بہت احترام ہے کیونکہ اگر وہ نہ ہوتے تو مسلم لیگ کا نام بھی نہ ہوتا لیکن میں انکو خود سے بڑا لیڈر نہیں مانتا۔ الله تعالی نے مجھے ایک عظیم لیڈر بنانا تھا اسلیئے مجھے بھی اس دنیا میں پچیس دسمبر کو لایا گیا۔ یہ  سب قدرت کے اشارے تھے کہ قائداعظم سے بڑے لیڈر نے جنم لے لیا ہے لیکن یہ بیوقوف قوم آج تک نہ سمجھی۔ 

اب کچھ میرے مشاغل کے بارے میں۔ 

موسیقی نہاری کے بعد میری دوسری بڑی کمزوری ہے۔ مجھے گانا گانے اور سننے کا جنون ہے۔ طاہرہ سید کی یادیں میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ جب اپنے حسین اور نازک ہاتھ گھما کر سُر کھینچتی تو میں دل تھام کر رہ جاتا۔ طاہرہ میرے اقتدار کے دنوں کے پہلی پہلی محبتوں میں شمار ہوتی تھی۔ کیا عورت تھی، کیا آواز تھی، کیا ادائیں تھیں۔ جب ساتھ نہ ہوتی تو رات رات بھر مجھے فون پر اپنی سریلی آواز سے جگائے رکھتی۔ پھر کسی دشمن نے آپکی بھابھی کلثوم اور ابا جی کو خبر کردی۔ میری موٹی موٹی اولادوں کو میرے سامنے کھڑا کرکے ایموشنل بلیک میل کیا گیا۔ طاہرہ آپکی بھابھی تو نہ بن سکی لیکن میرے دل میں وہ آج بھی میری ممتاز محل تھی۔ شاہجہان نے اپنی ممتاز محل کیلئے تاج محل بنوایا اور میں نے لاہور کے بیچوں بیچ طاہرہ کے شہرہ آفاق ہاتھ کی یادگار طاہرہ چوک بنوا کر انکے منفرد انداز کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔ یہ یادگار اب کلمہ چوک کے نام سے لاہور کا ایک لینڈ مارک بن چکی ہے۔

جو بیوقوف مجھے اس وقت طاہرہ سید اور نعیم بخاری کی طلاق کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے وہ آج میری دُور اندیشی کے معترف ہیں۔ میری چھٹی حس مجھے ہمیشہ نعیم بخاری سے خبردار کرتی رہی۔ میں جانتا تھا کہ یہ آگے جا کر پیٹھ میں چھرا گھونپے گا۔ دنیا نے دیکھا کہ میری بات سچ ثابت ہوئی۔ وہ مشرف کیساتھ مل گیا اور ہمارے محبوب ترین چوہدری افتخار کے خلاف کیس تیار کیا لیکن الله تعالی کے فضل و کرم سے منہ کی کھائی۔ 

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مشرف کو موسیقی اور گلوکاری کا شوق مجھے دیکھ کر ہوا تھا۔ وہ شروع سے مجھ سے جیلس تھا اور ہر چیز میں میری تقلید کرتا تھا۔ 

 

وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد میری سوچ میں وسعت پیدا ہوئی اور میں نے ترقی کی راہیں تلاش کرنے کیلئے دائرہِ اختیار و احباب سرحد پار تک پھیلانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے اس اقدام کو میوزک ڈپلومیسی کا نام دیا۔ 

آہ، آفرین بر زنِ  ہندوستان۔ دلشاد بیگم، انکے بارے میں کیا کہوں؟ سراپا حسن، مجسم دیوی، پوجنے کے لائق۔ جب پہلی دفعہ انکو دیکھا تو انکے نازک حنا آلود ہاتھ دیکھ کر دل بلیوں اچھلنے لگا۔ جس ادائے بے نیازی سے انہوں نے مجھے دیکھا اس ایک نظر نے مجھے گھائل کردیا۔ ہماری یہ ملاقات ہماری لازوال محبت کی بنیاد بنی۔ میں ان پر، انکی آواز پر مر مٹا۔ ممبئی کال کر کے میں رات رات بھر سرکاری فون پر ان سے بات کرتا۔ کبھی ہم پیار کی باتیں کرتے کبھی وہ مجھے اور میں انہیں پیار بھرے گیت سناتے۔ میں انکی مسحورکن آواز کے نشے میں چور رہتا۔ انکی حنائی ہتھیلیاں میری کمزوری بنیں اور میں نے انکی مدھر آواز میں 'او بھولنے والے غم میں تیرے' سن کر پاکستان کی کشمیر پالیسی تک بدل ڈالی۔  

 کم بارکر کے بارے میں بات کرنا میں ضروری نہیں  سمجھتا لیکن تحریکِ انصاف کے گمراہ ہوئے بچوں نے اس معاملے پر مجھے بہت بدنام کیا ہے اسلیئے ریکارڈ کی درستگی کیلئے بتا رہا ہوں کہ کم بارکر ایک مغرور اور بد دماغ لڑکی ہے۔ وہ پاکستان میں ہماری مہمان تھی اور مہمان کو عزت دینا ہماری سماجی اور مذہبی روایت ہے۔ تحفے تحائف دینے کا حکم الله تعالی نے دیا ہے۔ تحائف کا لین دین سنتِ رسول ہے۔ ظاہر ہے کم ہماری روایات کے بارے میں لاعلم ہے اسلئے اس نے میرے خلوصِ نیت پر شک کیا۔ میں نے اسکو آئی فون فائیو کا تحفہ دیا جو اس نے قبول نہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسکو اس بات پر غصہ تھا کہ آئی فون فائیو ایس نہ دے کر اسکی توہین کی گئی ہے۔ اگر یہ شکایت وہ مجھ سے کرتی تو میں فون کیساتھ اسکو سو ڈالر بھی دے دیتا کیونکہ پاکستانی مارکیٹ میں ایس ماڈل تب تک آیا ہی نہیں تھا۔ کم نے میرے ساتھ کی ہوئی ذاتی باتوں کو پبلک کرکے اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ بین القوامی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کا منفی امیج پیش کرکے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔  کم بارکر کو دوستی کی آفر کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اچھا لکھے تاکہ ہمارے ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار ہو سکے۔ ملک جتنا محفوظ ہوگا سرمایہ کاری بھی اتنی ہی زیادہ آئیگی۔میری مثال ہی لے لیجیئے۔ میں نے سرمایہ کاری کیلئے صرف دنیا کے محفوظ ممالک کا انتخاب کیا ہے۔ 

خان صاحب نے اس ملک کو دھرنا سیاست کرکے سو سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اگر دھرنے نہ ہوتے تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہوتا اور دنیا کے نامور صحافی بشمول کم بارکر مجھ پر تصانیف لکھنے کیلئے بےچین ہوتے۔ 



تبصرے

  1. یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. مزاح کے پیرائے میں لکهی نواز شریف کی بدصورت ذندگ پر ایک خوبصورت تحریر
    مانو الفاظ کا چناؤ خوب ہے اور وقت کے ساتھ لکھنے کے اسلوب میں بھی نکهار آ رہا ہے ..... کیپ اٹ اپ

    جواب دیںحذف کریں
  3. سیاسی پسند ناپسند کے پیرائے سے صرفِ نظر کرکے اگر اس تحریر کا ملاحظہ کیا جائے تو بہترین اسلوب استعمال کرکے دلکش مزاح نگاری کی گئی ہے۔ ۔ ۔ بہت اعلٰی ۔ ۔ اسی طرح لکھتی رہیں۔ ۔ ۔ خدا کرے زورِقلم زیادہ

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

محبت نامہ، صاحب جان کے نام _

Lest I Wither In Despair__

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے----__