جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے----__


میں یہ سطریں لکھتے وقت ٹرین میں بیٹھی ہوں۔ ارادہ تھا کہ ڈھائی گھنٹے کے پیرس تک کے سفر کے دوران مطالعہ کروں گی لیکن ٹرین کی تیز رفتار اور بھٹکتی سوچوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ کتاب کھولتے ہی سر چکرانے لگا سو میں نے کتاب بند کرکے آئی پیڈ کھول کر  لکھنا شروع کردیا۔ 
صبح تیار ہونے اور ٹویٹ کرنے کے دوران ایک ناقابلِ یقین خبر ملی۔ ایک جاننے والے صاحب جن کی بظاہر بےحد چاہنے والی بیگم تین دن پہلے انتقال کر گئیں تھیں، نے انکے سوئم کے روز شادی کر لی۔ 
میں اس جوڑے کو ذاتی طور پر جانتی تھی۔ میں نے جب یہ خبر سنی تو مجھے یقین نہیں آیا۔ دونوں کی محبت کی مثالیں پورے خاندان میں دی جاتیں۔ میں نے وہ محبت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور سوچتی تھی کتنے خوش نصیب ہیں یہ دونوں جن کو ایک دوسرے کی بےلوث محبت ملی۔ خاتون میکے چلی جاتیں تو بقول ان صاحب کے انکے حلق سے نوالہ نہ اترتا۔ خاتون اپنے شوہر کی بے مثال محبت کی باتیں سنا سنا کر نہال ہوتیں۔ شرمیلی اور مغرور مسکراہٹ سے بتاتیں کہ اگر وہ اپنے شوہر سے روٹھ جائیں تو وہ کھانا تک کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض کہ انکی قابلِ رشک محبت کے چرچے ہر طرف تھے۔ 
تین دن پہلے خبر آئی کہ اچانک خاتون کا انتقال ہوگیا۔ بہت افسوس ہوا۔ ان صاحب کیلئے دل بہت دکھا۔ انکی تو دنیا لٹ گئی ہوگی۔ کئی مرتبہ خیال آیا کہ کسی سے خبر لوں لیکن پھر لگا بیجا مداخلت ہو جائیگی۔ دکھ اور درد زیادہ تر لوگ اکیلے ہی منانا چاہتے ہیں اسلیئے انکی پرائیویسی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن آج صبح جب میں نے یہ سنا کہ جان نچھاور کردینے والی بیوی کے بظاہر جان چھڑکنے والے شوہر نے اسکے سوئم والے دن شادی کر لی تو آنکھوں میں بےاختیار آنسو آگئے۔ ٹینس دیکھنے کیلئے پیرس جانے کی ساری خوشی کافور ہو گئی۔ جیسے محبت پر میرا پختہ ایمان متزلزل ہونے لگا۔ میرا سارا وجود شدتِ جذبات سے کانپنے لگا۔ میں خود کو تقریباً گھسیٹتی ہوئی جا کر گاڑی میں بیٹھی۔ ٹرین سٹیشن تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگا۔ اس تمام وقت میں محبت کے اس انجام کو سوچ کر بےکل سی رہی۔ کیا محبت اتنا کمزور جذبہ ہے کہ نظروں سے اوجھل ہوتے ہی دفنا دیا جائے؟ 
صبح جب میں نے ٹویٹر پر یہ خبر شئیر کی تو کچھ دوستوں نے شبہ ظاہر کیا کہ یقیناً شوہر نے بیوی کو خود مارا ہوگا۔ اگر شوہر کی محبت کے بارے میں اسکی خوش فہمی اپنی زندگی میں دور ہوجاتی تو شاید وہ ایک موت تبھی مر جاتی۔ 

اس جوڑے کی محبت کی شادی تھی جو ذات برادری کی وجہ سےگھر والوں کی شدید مخالفت کے بعد ہوئی تھی اور ابھی شادی کو زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا۔ دونوں نے محبت میں ساتھ جینے اور  ساتھ مرنے کی قسمیں کھائی ہوں گی۔ اپنا گھر اور بچوں کو بڑا کرنے کے خواب دیکھے ہونگے۔ وہی سب خواب جو ہر محبت کرنے والا جوڑا دیکھتا ہے۔ جب خاتون کا انتقال ہوا تو میں سوچتی رہی پتہ نہیں بیچارے شوہر کا کیا حال ہوگا۔ پتہ نہیں بیچارے نے کھانا بھی کھایا ہوگا کہ نہیں۔ میری غلط فہمی بہت بے رحمانہ طریقے سے دور ہوئی۔ 
میں سمجھتی تھی سوائے محبت کے ہر چیز فانی ہے۔ لیکن اب احساس ہوا کہ محبت بھی فانی ہے۔ قبر میں پڑی اس بے جان عورت کا مردہ جسم ایک مرتبہ تو ضرور کسمسایا ہو گا اور اگر واقعی ارواح کا وجود ہے تو اس نے اپنی محبت کی یہ رسوائی دیکھ کر شکر ادا کیا ہو گا کہ وہ مرچکی ہے۔ زندہ ہوتی تو اسکا واویلا کون سنتا- 

تبصرے

  1. مرحومہ کے بچوں کی عمر کیا ہے؟ کیا آپ نے ان صاحب سے انکے عمل کی وجہ پوچھی؟ کیا ان صاحب کی کسی مجبوری کو جانتی یا سمجھتی ہیں؟

    محبت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ اور کسی بھی قسم کا گمان تو ہر گز نہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. انکی اولاد نہیں تھی۔ شادی کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا۔ کیا عورت کی محبت کی یہی وقعت ہوتی ہے کہ اسکی قبر کی مٹی بھی نہ سوکھنے دی جائے اور شادی کر لی جائے؟ اور ان کو کوئی مجبوری نہیں تھی۔ وہ تھے ہی اسی کردار کے۔

      حذف کریں
  2. معذرت کیساتھ لیکن میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس واقعہ میں محبت کی رسوائی کہاں ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بات اگر مرد کی بجائے عورت کی ہوتی تو آپکو ایسا نہ لگتا۔ قربانی کی توقع صرف عورت سے کی جاتی ہے مرد کو ہر آزادی ہے۔ وہ قبر کے پھول مرجھانے سے پہلے شادی رچا لے۔ یہ اس عورت کی محبت کی توہین ہے جس نے اپنی زندگی اس شخص کیلئے وقف کردی تھی۔

      حذف کریں
    2. عورت کی بات بھی ہوتی تو عدت پوری کرنیکےچاہے اگلے ہی دن شادی کرلیتی، کوئی مذائقہ نہیں تھا میرےنزدیک۔۔۔ :)

      حذف کریں
  3. معاشرہ ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ یہ معاشرے کی بے حسی کا عکاس ہے۔ نکاحِ ثانی تو کوئی بری بات نہیں لیکن اس عورت کی محبت کی عزت میں تھوڑا انتظار کیا جا سکتا تھا۔ سوئم والے دن شادی کرنا واقعی بے حسی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

محبت نامہ، صاحب جان کے نام _

Lest I Wither In Despair__