محبت نامہ، صاحب جان کے نام _

میرے صاحب جان،
کتنے دن ہوگئے آپ کی کوئی خبر نہیں ہے۔ آج پھر بہت دل گرفتہ ہوں،اکثر سوچتی تھی کہ جب بھی آپ سے بات ہوگی  میں ان تمام کیفیات کا اظہار کروں گی جن سے میری کوئی شناسائی نہ تھی مگر آپ کو سامنے پاکر کانپتے ہونٹ اور گنگ زبان کچھ بھی نہ  کہہ پائے۔ آج محبت کی شدت جذبات کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہی سو میں نے قلم اٹھایا ہے اس غبار کو اپنے اندر سے نکالنے کیلئے کہ محبت کا بہترین مجرب عمل تو اظہارِ محبت ہی ہے۔ 
غیرمحسوس طریقے سے جب کوئی آپکے دل کے ان خانوں پر قابض ہو جائے جو شاہراہِ عام نہیں ہوتے تو دل کیا کرے؟ محبت کی  یہی خامی ہے کہ جب ہوتی ہے تو نفع نقصان نہیں دیکھتی۔ بس ایک اصول ہے کہ محبت کو کبھی جھک کر نہیں اٹھانا چاہیئے۔

جب تک آپ میری زندگی میں نہیں تھےتو  زندگی بے جان لگتی تھی۔ کہیں کچھ کمی  کا احساس تھا پھر آپ دبے پاؤں زندگی میں آ گئے تو جیسے رنگوں کی بہار آگئی۔ عجیب سا رشتہ تھا۔ شروع شروع کی محبت کے نشے کا سرور بھی الگ ہی  تھا اور اس شخص کو کھونے کا ڈر بھی جو کبھی میرا تھا ہی نہیں۔ آپ مُسکراتے تو میں مُسکراتی، آپ غُصہ کرتے تو میں رو پڑتی لیکن آپکا غصہ بھی آپ ہی کی طرح موم جیسا ہے، جب پگھلتا ہے تو چاندنی بن جاتا ہے اور آپ کی مسکراہٹ تو  مجھے   تمام فکروں سے بے نیاز کردیتی ہے۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔ 
صاحب جان،  آپکا انتظار کرنا مجھے زندگی کا سب سے خوبصورت اور ضروری کام لگتا ہے۔ جب آپ مسکراتے ہوئے آتے ہیں تو میری آنکھیں ایسے روشن ہو جاتی ہیں کہ ہزار شمعوں کی روشنی بھی ماند پڑ جائے۔ میری منتظر نگاہوں  کو قرار آجاتا ہے۔بےقراری کو آپ سے چھپانے کی کوشش ہرچند چاہتی ہوں پر جی نہیں سنبھلتا۔ کبھی اتنی بے بسی کہ محبت کی شدت کے اظہار سے انصاف نہیں کر پاتی۔ نہ الفاظ ملتے ہیں نہ اظہار کا کوئی اور ذریعہ- کہاں لے جاؤں اتنی محبت کہ جب یہ لاوا اُبلتا ہے تو پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے پھر آنکھیں برسنے لگتی ہیں اور تشنگی کا جان لیوا احساس اور بھی تکلیف دینے لگتا ہے۔ 
محبت ہوتی بڑی مشکل سے ہے اور جب ہوتی ہے تو منہ زور گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتی ہی چلی جاتی ہے پھر راستے میں اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ منزل اگر انجانی ہو تو  جب تک یہ ہانپ نہ جائے یہ سرپٹ دوڑتی رہتی ہے ۔ خوف، رعب اور محبت کے ملے جُلے جذبات لئے جب میں آپ سے بات کرتی ہوں تو محبت مغلوب ہو جاتی ہے۔ کبھی احساس ہوتا ہے کہ میری محبت کی شدت  آپکا دم گھونٹ دیتی ہو گی۔ پیار میں شدت نہ ہو تو محبت کیسی اور اگر شدت کا اظہار نہ ہو تو اظہار کیسا۔ 
سرد اور تنہا راتوں میں سوچوں کی سُولی پر لٹکتے ہوئے خواہش کی شدت کے اظہار سے ڈرنے کی ناکام کوشش کی  لیکن آدابِ محبت نبھانا نہیں بھول سکی۔ فیصلہ دماغ کے خلاف ہوا اور آپ متاعِ جاں ٹھہرے۔ میرا قصور تھا کہ مجھے آپ سے محبت ہو گئی۔ خطاوار میں ٹھہری، سزا بھی میری۔
اس ان دیکھی، انجانی منزل کی طرف چلتے چلتے نجانے کتنا وقت گزر چکا ہے۔ گردوپیش کے تمام عکس دھندلا چکے ہیں 
اب واپسی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ نہ ستارے ہیں نہ کہکشاں نہ راستوں میں گلابوں کی پنکھڑیاں بکھری ہیں۔ اک حسرت ہے اک یاس ہے۔ خزاں کے زرد پتوں کے بیچ میں ہی کہیں میرا دل بھٹک رہا ہے جو ہر روز کی طرح آپ کا منتظر ہے۔ وہ آنکھوں کا نُور جو ہزاروں چراغوں کی جوت سے زیادہ روشن تھا وہ نُور آپکی محبت سے منسلک ہے۔ آپکی محبت میری زندگی کا حصہ ہے۔ 
‏بس اتنی سی گزارش ہے کہ ان لمحوں کی یادیں سنبھال کر رکھیئے گا۔ میں جانے کے بعد یاد آؤں گی اور یہ یقین مجھے آپکی محبت نے دیا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں میں آپ سے بےحد محبت کرتی ہوں، بےحد، بےحساب-
نوٹ : صاحب جان ایک فرضی کردار کا نام ہے جسے میں نے جذبات کے اظہار کیلئے صاحب جان کا نام دیا۔ 

تبصرے

  1. شکر ہے کہ سیاست کے علاوہ بھی کچھ لکھا۔۔۔ اور کیا اعلیٰ لکھا۔۔۔ بہت عمدہ۔۔۔

    یہ تو میں پہلے ہی سے جانتا ہوں کہ تم اپنی کیفیات اور احساسات کو انتہائی شائستہ اور عمدہ الفاظ کے ساتھ بیان کر سکتی ہو۔۔۔ لیکن یہ امید نا تھی کہ ایک دن سب کچھ ایسے لکھ پاو گی۔۔۔

    پھر سے شکریہ کہ ایک طویل عرصے بعد کچھ اچھا پڑھنے کو ملا۔۔۔ خوش رہو۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. واہ کیا بات ہے جناب بہت اچھے لکھتے رہیں اسطرح 😍

    جواب دیںحذف کریں
  3. لاجواب احساس کے موتیوں اور امید و انتظار کی سولی پر لٹکتے ہوئے جذبوں سے مزین ایک بہتر سے بہترین تحریر

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

Lest I Wither In Despair__

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے----__